اقبال کا اقبال ۔۔

اقبال کا اقبال ۔۔ اس تحریر کے ذریعے میرا مقصد یہ باور کروانا ہرگِز نہیں کہ علما کا قادیانت کو بے نقاب کرنے میں کوئی کردار نہی۔، یقیناً علما کا جزبہ بھی قابلِ قدر تھا، پیر گولڑہ شریف اور مولانا ثنااللہ امرتسری نے مرزا قادیانی کو نہ صرف عوامی حلقوں میں بے نقاب کیا بلکہ اس کا ایسا ناطقہ بند کیا کہ مرزا بوکھلا کر بددعاوں اور شدید لعنت ملامت پر اُتر آیا اور اپنی کتاب نورالحق میں چار صفحوں پر ایک ہزار بار علما کے لیے لعنت لعنت لعنت کے الفاظ لکھ کر لعنت ملامت کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا، لیکن عوام شیعہ سُنی مناظروں کے عادی تھے یہ عُلما کی کوششوں کو اسی ضمن میں دیکھتے تھے کہ گویا فرقوں کی کوئی لڑائی ہو۔ علامہ اقبال علمی اور سیاسی حلقوں میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے اور انہی کی کوششوں سے عوام اور خواص کو فتنہ قادیانیت کی خطرناکی کا ادراک ہوا۔ ورنہ مرزا کے دعوے کُچھ ایسے تھے کہ ہاں میں نبی ہوں، لیکن میں نبی نہیں ہوں، میں تو مہدی ہوں لیکن میں وہ مہدی نہیں ہوں جسکا تمہیں انتظار ہے، ممکن ہے وہ مہدی بھی آئے میں تو وہ مسیحِ موعود ہوں، لیکن مجھے وہ مسیح نہ سمجھنا جسکا تم انتظار کرتے ہو، اُنکی تو موت ہو گئی، لیکن میں وہی ہوں مریمؑ کا بیٹا مسیح، مریم بھی میں خود ہی ہوں، مجھ میں ہی مسیح کی روح پھونکی گئی تھی، پھر میں حاملہ ہوا اور میں نے مسیح کو جنم دیا، یعنی میں وہی مسیح ہوں جسے اللہ نے سُولی سے بچا لیا تھا، میں ظِلّی نبی ہوں، میں بروزی نبی ہوں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے، میں انہی کی شریعت پر ہوں کوئی نئی شریعت تھوڑی لایا ہوں، یاں وحی مجھے ہوتی ہے، میری کتاب خطبہ الہامیہ وحی اور شریعت نہیں تو اور کیا ہے، میں عین نبی ہوں، میں ہی دراصل کرشنا ہوں جسکا ہندووں کو انتظار ہے، ظِلّی طور میں محمد ہی تو ہوں۔ قادیان میں محمد کا ہی تو دوبارہ نزول ہوا ہے وہ بھی ایک نئی شان سے، اللہ نے پہلے کائنات بنائی تھی پھر میں نے اسے نئے سرے سے اللہ کے ساتھ مل کر بنایا، میں نے ویسی نبوّت کا دعوٰی کبھی نہیں کیا جیسا مجھ پر الزام ہے یہ عاجِز تو مہدی ہے۔ باقی تو سب مجھ پر ایمان لاتے ہیں بس زانیہ عورتوں کی اولادیں مجھے نہیں مانتی۔ ایسے کنفیوزنگ تھے مرزا کے دعوے، اُسے علما سے لڑ کر مزا آتا تھا۔ عوام آخر تک کنفیوز ہی رہے کہ دعوٰی کیا ہے۔ اقبال ہی تھے جنہوں نے انکے میدان میں کھیلنے کی بجائے انہیں وہاں گھیرا جہاں گھیرنے کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانی اقبال سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں۔ پاکستان میں قادیانی ایشُو پر بات تو ہر چند مہینے بعد شروع ہو ہی جاتی ہے، لیکن نوٹ کیجیے گا جیسے ہی قوم اس ایشُو پر زور و شور سے بات شروع کرتی ہے چند لوگ حیلوں بہانوں سے علامہ اقبال کو کوسنے لگتے ہیں۔
بات بہت سادہ ہے، عُلما کرام سو سال مزید کوشش بھی کرتے تو قادیانیت ویسے ایکسپوز نہ ہوتی جیسے اقبال نے اسکے عزائم سے متعلق رائے عامہ ہموار کی۔ عُلما مرزا قادیانی اور اسکے مربیان سے مناظرے کرتے تھے اور مناظروں سے عوام کبھی جان ہی نہ ہاتے کون جیتا کون ہارا۔ اقبال اس معاملے میں بہت فوکسڈ تھے، یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جامعة الازہر کو سب سے پہلے قادیانیت سے متعلق علمی دلائل بھیجے، اقبال ہی نے کشمیر کمیٹی سے مرزا قادیانی کے بیٹے کو نہ صرف بے دخل کروایا بلکہ کشمیر سے متعلق قادیانی عزائم کو سامنے لائے۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کو باور کروایا کہ قادیانیت کیسے اسلام سے بالکل متضاد ایک الگ مذھب ہے۔ اقبال ہی نے اُس وقت کی خودمختار ریاست بہاولپور کی سب سے بڑی عدالت کی قادیانیت کو ایک الگ مذھب قرار دینے کے فیصلے میں علمی معاونت کی۔ بے پناہ بصیرت رکھنے والے اقبال نے قادیانیوں سے مناظرے کرنے یا انہیں ویسی ہی گالیاں دینے کی بجائے جیسی مرزا قادیانی مسلمانوں کو دیتا تھا وہ محنت کی جسکا نتیجہ بالآخر مسلمانوں کے اس اجماع پر نکلا کہ قادیانیت ہر پیمانے پر اسلام سے متضاد ایک الگ مذھب تو ہے ہی یہ ایک عظیم فتنہ بھی ہے کیونکہ قادیانی اپنی جداگانہ مذھبی شناخت قبول کرنے کی بجائے مسلمانوں کے رُوپ میں انکی جڑوں میں بیٹھے رہہ کر انہیں کُترنا چاہتے ہیں۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری

تبصرے

sports