صادق آباد کا اندھڑ گینگ: پولیس کے نظام کو چیلنج کرنے والا سفاک گینگ

صادق آباد کا اندھڑ گینگ: رحیم یار خان میں باپ اور چار بیٹوں سمیت نو افراد کا قاتل اور پولیس کے نظام کو چیلنج کرنے والا سفاک گینگ
دوپہر کا وقت تھا جب دس سے پندرہ افراد پانچ موٹر سائیکلوں پر سوار ایک پیٹرول سٹیشن پر آ کر رُکے، انھوں نے کندھوں پر بندوقیں لٹکا رکھی تھیں۔ مسلح افراد کو دیکھ کر پیٹرول پمپ کے دفتر میں بیٹھے چند لوگوں نے چھپنے کی کوشش کی جبکہ باقی افراد یہ جاننے کے لیے باہر نکلے کہ معاملہ کیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں یہ مسلح افراد دفتر میں داخل ہوئے۔ دفتر میں موجود لوگوں اور مسلح افراد کے درمیان چند لمحوں کے لیے بات چیت بھی ہوئی۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر ایک شخص نے مسلح افراد میں سے ایک کے پاؤں پکڑے اور ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔ مگر پھر اچانک ہی مسلح افراد نے فائرنگ شروع کر دی۔ وہ تمام افراد جو دفتر میں موجود تھے ان کے نشانے پر آئے۔ اُن میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔ مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر آگے بڑھ گئے اور پولیس کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے پیٹرول پمپ کے ساتھ ہی واقع دو دکانوں کے باہر رُک دوبارہ فائرنگ بھی کی۔ یہ تمام کارروائی مکمل کر کے مسلح افراد فرار ہو گئے. بعدازاں معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر نو افراد ان مسلح افراد کی بھینٹ چڑھے اور قتل ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی گھر کے پانچ افراد شامل تھے یعنی ایک باپ غلام نبی اندھڑ اور اُن کے چار بیٹے۔ اس کے علاوہ غلام نبی کا پانچواں بیٹا اس واقعے میں زخمی بھی ہوا۔ غلام بنی اس پیٹرول پمپ کے مالک تھے. پیٹرول پمپ پر پیش آنے والے اس اندوہناک واقعے کا منظر وہاں نصب سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہو گیا تھا اور بعد میں سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز گردش کرتی رہیں۔ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ جس انداز سے مرنے والے مسلح افراد سے بات چیت کر رہے تھے اس سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ وہ پہلے ہی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ یہ پیٹرول پمپ صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے موضع دعوالہ میں ماہی چوک کے علاقے میں تھا۔ یہاں سے پولیس کی ایک چوکی زیادہ دور نہیں تھی، تاہم پولیس ڈاکوؤں کو روکنے یا واردات کے فوری بعد گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
مقامی پولیس کے مطابق مسلح افراد کا تعلق اس علاقے میں گذشتہ کئی برسوں سے متحرک 'اندھڑ گینگ' سے تھا۔ گینگ کے سربراہ جان محمد عرف جانو اندھڑ بھی ان افراد میں شامل تھے۔ پولیس نے اس واقعے کی رپورٹ دو روز بعد مجاہد امیر نامی ایک شخص کی مدعیت میں تھانہ کوٹ سبزل میں درج کی۔ مجاہد کے ایک بھائی مرنے والوں میں شامل تھے۔ تاہم چند ہی روز میں مجاہد امیر مقدمہ میں مدعی بننے سے دستبردار ہو گئے۔ انھوں نے ایک بیان حلفی کے ذریعے اس مقدمے کی مدعیت سے دستبردار ہونے کا باضابطہ اعلان کیا۔ اپنی درخواست میں انھوں نے لکھا کہ ’ہم نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ میں اس مقدمے میں بالکل بھی مدعی نہیں بننا چاہتا۔ اگر باقی مقتولین کے ورثا مدعی بننا چاہیں تو بے شک بن جائیں۔‘ مقامی افراد کے مطابق یہ ڈاکوؤں کا خوف تھا جس کی وجہ سے لوگ ان کے خلاف بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بی بی سی نے بھی مقامی افراد سے اس معاملے اور ’اندھڑ گینگ‘ پر بات کرنے کی کوشش کی تاہم زیادہ تر لوگوں نے معذرت کر لی جبکہ وہ افراد جنھوں نے کچھ معلومات فراہم کیں انھوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق اس وقوعے کے بعد سے علاقے میں خوف کا سماں تھا اور جو بھی ڈاکوؤں کے خلاف بات کرتا ہے وہ (ڈاکو) اس سے رابطہ کرتے ہیں اور ’جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔‘ مقامی افراد کے مطابق یہ بات صرف دھمکیوں تک محدود نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ڈاکو ان دھمکیوں پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.. مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کے 'اندھڑ گینگ' کی تاریخ کیا ہے اور اپنی حالیہ کارروائی میں اس گینگ نے ایک ہی گھر کے پانچ افراد سمیت نو افراد کو نشانہ کیوں بنایا؟ پانچ برس قبل ہونے والا ’پولیس آپریشن‘ اور خانو اندھڑ کی ہلاکت مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ کہانی سنہ 2016 سے شروع ہوتی ہے۔ اُس برس جولائی کے مہینے میں رحیم یار خان پولیس نے اندھڑ گینگ کے سات ڈاکوؤں کو ایک مبینہ آپریشن کے بعد ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا تھا. یہ واقعہ اس وقت کے اخبارات میں بھی رپورٹ ہوا تھا جس میں پولیس کے آپریشن کے حوالے سے دعوؤں پر سوالات بھی اٹھائے گئے تھے.. پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ان سات ڈاکوؤں کو درحقیقت کشمور میں ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا اور اس کے بعد رحیم یار خان پولیس اُن کی لاشوں کو چوک ماہی میں لے آئی تھی۔ یاد رہے کہ چوک ماہی کا علاقہ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر واقع ہے اور ڈاکو زیادہ تر دونوں صوبوں کے کچے کے علاقے میں چھپ کر رہتے ہیں۔. پولیس اہلکار کے مطابق ’چوک ماہی میں ان ڈاکوؤں کی لاشوں کو سرعام سڑک پر رکھا گیا تھا۔ اس وقت وہاں جمع ہونے والے عوام نے اس کارروائی پر پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے بھی لگائے تھے۔‘ مارے جانے والے ان ڈاکوؤں میں 'اندھڑ گینگ' کے سرغنہ خانو اندھڑ بھی شامل تھے جو گینگ کے موجودہ سربراہ جانو اندھڑ کے بھائی تھے.
حال ہی میں مارے جانے والوں کا اس واقعے سے کیا تعلق تھا؟ پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2016 میں پولیس نے جن سات ڈاکوؤں کو مارا تھا ان میں جانو اندھڑ کے پانچ بھائی اور ایک بھتیجا شامل تھے۔. جانو اندھڑ نے اس وقت الزام عائد کیا تھا کہ غلام نبی اندھڑ اور ان کے خاندان والوں نے پولیس کو ان کے بھائیوں کے بارے میں مخبری کی تھی جس کے بعد پولیس نے انھیں گرفتار کر کے ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق ’جانو اندھڑ کو شک تھا کہ غلام نبی اور ان کے خاندان نے پولیس کو پیسے دے کر اور مخبری کر کے ان کے بھائیوں کو مروایا تھا۔‘ تاہم غلام نبی اور ان کے خاندان کے افراد اس کی تردید کرتے تھے۔

تبصرے

sports